Friday, August 1, 2014

’نوجوان لنگوروں کابھیس بناکر بندروں کو بھگاتے ہیں



بھارت کے دارالحکومت دہلی میں صدارتی محل اور پارلیمان کے آس پاس کے علاقوں سے بندروں کو بھگانے کے لیے پہلے لنگوروں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں لیکن اب حکومت کے مطابق ان کی جگہ انسانوں نے لے لی ہے



!دہلی کے بہت سے علاقوں میں بندروں نے لوگوں کی زندگی مشکل بنا رکھی ہے، لیکن وسطی دہلی میں صورتحال کافی زیادہ خراب ہے اور حکومت کے مطابق لنگوروں کے پالنے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد سے اب ’تربیت یافتہ نوجوان‘ لنگوروں کا بھیس بناکر یہ کام انجام دے رہے ہیں


یہ انکشاف شہری ترقی کے وفاقی وزیر وینکیا نائڈو نے راجیہ سبھا میں کیا ہے۔ ایک رکن پارلیمان نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ جنگلی کتے اور بندر پارلیمان کے اندر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ایک بڑا مسئلہ بن گئے ہیں، اور اگر ہاں تو صورتحال پر قابو پانے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں۔
"بندروں کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے فی الحال نئی دہلی میونسپل کارپوریش نے چالیس تربیت یافتہ نوجوانوں کی خدمات حاصل کی ہیں جو لنگوروں کابھیس بناکر بندروں کو بھگاتے ہیں ۔۔۔ بندروں کو ڈرانے کے لیے پلاسٹک کی گولیوں والی بندوقیں بھی خریدی گئی ہیں۔"
شہری ترقی کے وفاقی وزیر
ایک تحریری جواب میں نائڈو نے کہا کہ ’بندروں کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے فی الحال نئی دہلی میونسپل کارپوریش نے چالیس تربیت یافتہ نوجوانوں کی خدمات حاصل کی ہیں جو لنگوروں کابھیس بناکر بندروں کو بھگاتے ہیں ۔۔۔ بندروں کو ڈرانے کے لیے پلاسٹک کی گولیوں والی بندوقیں بھی خریدی گئی ہیں۔‘
ہندو مذہب میں بندروں کو بھگوان ہنومان کا روپ مان کر ان کا احترام کیا جاتا ہے اور لوگ عام طور پر انہیں کھانے پینے کا سامان دیتے ہیں اور انہیں مارنے پر پابندی ہے۔ اس وجہ سے دہلی کے بہت سےعلاقوں میں بندروں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی۔
عدالت نے مقامی انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ بندروں کو پکڑ کر انہیں دہلی کے قریب جنگلوں میں منتقل کیا جائِے۔ انہیں کھانے پینے کی چیزیں دینے پر بھی پابندی عائد کی گئی۔
لیکن صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی کیونکہ جن بندروں کو آس پاس کے جنگلوں میں چھوڑا بھی جاتا ہے، ماہیرن کے مطابق وہ دوبارہ لوٹ آتے ہیں۔ گزشتہ تقریباً سات برسوں میں نئی دہلی میونسپل کارپوریشن نے بندروں کو اسولہ بھٹی کے جنگلوں میں خوراک فراہم کرنے پر چھ کروڑ روپے سےزیادہ رقم خرچ کی ہے۔

دوبارہ لوٹ آتے ہیں

جن بندروں کو آس پاس کے جنگلوں میں چھوڑا بھی جاتا ہے، ماہیرن کے مطابق وہ دوبارہ لوٹ آتے ہیں۔ گزشتہ تقریباً سات برسوں میں نئی دہلی میونسپل کارپوریشن نے بندروں کو اسولہ بھٹی کے جنگلوں میں خوراک فراہم کرنے پر چھ کروڑ روپے سےزیادہ رقم خرچ کی ہے۔
میونسپل کارپوریشن کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس بندروں کو پکڑنے کے لیے تربیت یافتہ لوگ نہیں ہیں اور یہ کام محکمہ جنگلات کے سپرد کیا جانا چاہیے۔ دہلی ہائی کورٹ نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جو بندروں کے مسئلے سےنمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی نگرانی کرتی ہے۔
محکمہ جنگلی حیات نے دو ہزار بارہ میں لنگوروں کی خرید و فروخت اور ان سےکسی بھی طرح کا کام کروائے جانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس سے پہلے لنگور والے کافی عام تھے اور بہت سی کالونیوں میں بندروں کو بھگانے کے لیے انہیں باقاعدہ ٹھیکہ دیا جاتا تھا۔
لیکن لنگور پالنے والے ایک شخص وجے کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی بندروں کو بھگانے کے لیے لنگوروں کا ہی سہارا لیتے ہیں، کبھی کبھی انہیں بغیر لنگور کے بھی جانا پڑتا اور وہ صرف اس کی آواز نکال کر بندروں کو ڈراتے ہیں۔ لیکن اب انہیں پہلے کی طرح کوئی کانٹریکٹ نہیں دیا جاتا۔

No comments:

Post a Comment