لاہور میں پولیس سے تصادم میں آٹھ افراد ہلاک
اکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن کے سیکریٹیریٹ کے قریب پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان تصادم میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور 97 کے قریب زخمی ہوگئے۔
جناح ہپستال کے ذرائع نے دو خواتین سمیت آٹھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جبکہ 15 سے زائد پولیس اہل کاروں سمیت 150 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا حکم دیتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر اس کی سماعت کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ انھیں ’عوامی تحریک کے کارکنوں کی ہلاکت پر افسوس ہے۔ میں طاہر القادری سے کارکنان کی ہلاکتوں پر افسوس کرتا ہوں۔‘
انھوں نے اس واقعے میں آٹھ افراد ہلاک اور 97 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان پر براہ راست فائرنگ کی گئی
انھوں نے کہا ہے سیکریٹیریٹ کے اطراف میں حفاظتی رکاوٹیں چار سال پہلے ہائی کورٹ کے حکم پر لگائی گئی تھیں اور حکومت اگر چاہتی تو بات چیت کر کے معاملہ حل کر سکتی تھی۔
انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ انھیں حکومت نے فوج کی حمایت کرنے کی پاداش میں سزا دی ہے۔ طاہر القادری نے کہا کہ پولیس ان کے اہل خانہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ طاہر القادری کے مطابق وہ وزیراعلیٰ شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرائیں گے۔
دوسری جانب سی سی پی او لاہور کا کہنا ہے کہ منہاج القرآن کے 53 کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ منہاج القرآن کے کارکنوں نے پہلے پولیس پر فائرنگ کی اور پتھراؤ کیا۔
" منہاج القرآن کے کارکنوں نے پہلے پولیس پر فائرنگ کی اور پتھراؤ کیا۔ مہناج القرآن کے 53 کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ "
سی پی او لاہور
سٹی کیپٹل پولیس چیف چودھری شفیق گجر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس پولیس آپریشن کے ختم کیے جانے کی تصدیق کی ہے جو پیر کی رات دو بجے شروع ہوا تھا۔
پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ان رکاوٹوں پر پہلے پولیس تعینات تھی لیکن بعد میں جب عوامی تحریک کے کارکنوں نے پولیس کو ہٹا کر وہاں مسلح ملیشیا تعینات کر دی تو پھر قانون کی بالادستی کے لیے انھیں ہٹانا ضروری تھا۔
پولیس اور منہاج القرآن کے کارکنوں کے درمیان یہ تصادم پیر اور منگل کی درمیانی شب دو بجے اس وقت شروع ہوا جب پولیس نے منہاج القرآن سیکریٹیریٹ اور طاہر القادری کے گھر کے ارد گرد لگی حفاظتی رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 20 سے 22 مقامی لوگ اور راہگیر اس ہنگامہ آرائی کے بعد سے لاپتہ ہیں اور گھروں کو نہیں پہنچے۔
"ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ رکاوٹیں چار سال پہلے ہائی کورٹ کے حکم پر لگائی گئی تھیں اور حکومت اگر چاہتی تو بات چیت کر کے معاملہ حل کرسکتی تھی۔ "
طاہر القادری
منگل کی صبح پولیس نے مزید نفری بلائی۔ پولیس کے مطابق اس دوران کارکنوں نے فائرنگ کی اور پولیس پر پٹرول بم پھینکے۔
دوسری طرف مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان پر براہ راست فائرنگ کی گئی جس سے خواتین سمیت کارکن ہلاک ہو گئے۔
No comments:
Post a Comment